ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک مشہور پاکستانی ایٹمی سائنسدان اور میٹالرجیکل انجینئر ہیں۔ انہیں پاکستان کے نیوکلیئر ڈیٹرنٹ پروگرام کے لیے گیس سینٹری فیوج افزودگی ٹیکنالوجی کے بانی کے طور پر بڑے پیمانے پر جانا جاتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام انتہائی قومی فخر کا باعث ہے۔ اس کے "باپ" کے طور پر، A.Q. 25 سال تک پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی سربراہی کرنے والے خان کو قومی ہیرو سمجھا جاتا ہے۔
ابتدائی زندگی اور کیریئر:
ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1936 میں بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ وہ 1947 میں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گئے۔ سینٹ انتھونی ہائی سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد، خان نے کراچی کے ڈی جے سائنس کالج میں داخلہ لیا، جہاں انہوں نے فزکس اور ریاضی کی۔ کالج میں ان کے استاد مشہور شمسی طبیعیات ڈاکٹر بشیر سید تھے۔ خان نے B.Sc کی ڈگری حاصل کی۔ 1960 میں کراچی یونیورسٹی سے فزیکل میٹالرجی میں ڈگری حاصل کی۔
خان نے گریجویشن کے بعد کراچی میں وزن اور پیمائش کے انسپکٹر کی نوکری قبول کی۔ بعد میں اس نے استعفیٰ دے دیا اور 1970 کی دہائی میں ہالینڈ میں کام کرنے چلے گئے۔ خان نے جس نیوکلیئر پلانٹ میں کام کیا وہاں ایک باصلاحیت سائنسدان کے طور پر شہرت حاصل کی۔ انہیں URENCO سہولت کے انتہائی محدود علاقوں تک خصوصی رسائی حاصل تھی۔ وہ گیس سینٹری فیوج ٹیکنالوجی پر خفیہ دستاویزات بھی پڑھ سکتا تھا۔
دسمبر 1974 میں، وہ پاکستان واپس آئے اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی تعمیر میں پلوٹونیم کے راستے کی بجائے یورینیم کا راستہ اختیار کریں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق A.Q. خان کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق اور پاکستان کی فوج کے ساتھ قریبی اور خوشگوار تعلقات تھے۔ انہوں نے پاک فضائیہ کے ساتھ بھی گہرا تعلق قائم رکھا۔
پاکستان کے جوہری پروگرام میں اپنے کردار کے بعد، خان نے پاکستان کی قومی خلائی ایجنسی سپارکو کو دوبارہ منظم کیا۔ 1990 کی دہائی کے آخر میں، خان نے پاکستان کے خلائی پروگرام، خاص طور پر پاکستان کے پہلے پولر سیٹلائٹ لانچ وہیکل (PSLV) پروجیکٹ اور سیٹلائٹ لانچ وہیکل (SLV) میں اہم کردار ادا کیا۔ خان کی پاکستان کے جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل کی صلاحیتوں کی غیر محدود تشہیر نے پاکستان کی حکومت کی تذلیل کی۔ امریکہ یہ سوچنے لگا کہ پاکستان شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی دے رہا ہے، تاکہ اس کے بدلے میں بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی جا سکے۔ خان بھی 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں ہونے والے حملوں کے بعد نئے سرے سے جانچ پڑتال کی زد میں آئے جس نے مبینہ طور پر جوہری ٹیکنالوجی ایران کو فروخت کی۔ تاہم، انہیں 2004 میں معاف کر دیا گیا، لیکن گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔
22 اگست 2006 کو پاکستانی حکومت نے اعلان کیا کہ خان کو پروسٹیٹ کینسر کی تشخیص ہوئی ہے اور وہ زیر علاج ہیں۔ انہیں فروری 2009 میں نظر بندی سے رہا کیا گیا تھا۔
Answers & Comments
Verified answer
Answer:
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک مشہور پاکستانی ایٹمی سائنسدان اور میٹالرجیکل انجینئر ہیں۔ انہیں پاکستان کے نیوکلیئر ڈیٹرنٹ پروگرام کے لیے گیس سینٹری فیوج افزودگی ٹیکنالوجی کے بانی کے طور پر بڑے پیمانے پر جانا جاتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام انتہائی قومی فخر کا باعث ہے۔ اس کے "باپ" کے طور پر، A.Q. 25 سال تک پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی سربراہی کرنے والے خان کو قومی ہیرو سمجھا جاتا ہے۔
ابتدائی زندگی اور کیریئر:
ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1936 میں بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ وہ 1947 میں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گئے۔ سینٹ انتھونی ہائی سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد، خان نے کراچی کے ڈی جے سائنس کالج میں داخلہ لیا، جہاں انہوں نے فزکس اور ریاضی کی۔ کالج میں ان کے استاد مشہور شمسی طبیعیات ڈاکٹر بشیر سید تھے۔ خان نے B.Sc کی ڈگری حاصل کی۔ 1960 میں کراچی یونیورسٹی سے فزیکل میٹالرجی میں ڈگری حاصل کی۔
خان نے گریجویشن کے بعد کراچی میں وزن اور پیمائش کے انسپکٹر کی نوکری قبول کی۔ بعد میں اس نے استعفیٰ دے دیا اور 1970 کی دہائی میں ہالینڈ میں کام کرنے چلے گئے۔ خان نے جس نیوکلیئر پلانٹ میں کام کیا وہاں ایک باصلاحیت سائنسدان کے طور پر شہرت حاصل کی۔ انہیں URENCO سہولت کے انتہائی محدود علاقوں تک خصوصی رسائی حاصل تھی۔ وہ گیس سینٹری فیوج ٹیکنالوجی پر خفیہ دستاویزات بھی پڑھ سکتا تھا۔
دسمبر 1974 میں، وہ پاکستان واپس آئے اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی تعمیر میں پلوٹونیم کے راستے کی بجائے یورینیم کا راستہ اختیار کریں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق A.Q. خان کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق اور پاکستان کی فوج کے ساتھ قریبی اور خوشگوار تعلقات تھے۔ انہوں نے پاک فضائیہ کے ساتھ بھی گہرا تعلق قائم رکھا۔
پاکستان کے جوہری پروگرام میں اپنے کردار کے بعد، خان نے پاکستان کی قومی خلائی ایجنسی سپارکو کو دوبارہ منظم کیا۔ 1990 کی دہائی کے آخر میں، خان نے پاکستان کے خلائی پروگرام، خاص طور پر پاکستان کے پہلے پولر سیٹلائٹ لانچ وہیکل (PSLV) پروجیکٹ اور سیٹلائٹ لانچ وہیکل (SLV) میں اہم کردار ادا کیا۔ خان کی پاکستان کے جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل کی صلاحیتوں کی غیر محدود تشہیر نے پاکستان کی حکومت کی تذلیل کی۔ امریکہ یہ سوچنے لگا کہ پاکستان شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی دے رہا ہے، تاکہ اس کے بدلے میں بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی جا سکے۔ خان بھی 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں ہونے والے حملوں کے بعد نئے سرے سے جانچ پڑتال کی زد میں آئے جس نے مبینہ طور پر جوہری ٹیکنالوجی ایران کو فروخت کی۔ تاہم، انہیں 2004 میں معاف کر دیا گیا، لیکن گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔
22 اگست 2006 کو پاکستانی حکومت نے اعلان کیا کہ خان کو پروسٹیٹ کینسر کی تشخیص ہوئی ہے اور وہ زیر علاج ہیں۔ انہیں فروری 2009 میں نظر بندی سے رہا کیا گیا تھا۔
Explanation:
سلام کیا حال ہے؟
بہت دن ہو گے تمہیں دیکھے!